دنیا میں مختلف
واقعات ہوتے ہیں؛ کچھ نارمل اور کچھ ایسے جن سے کئی بے گناہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات
پاکستان میں اکثر ہوتے ہیں ،جیسے کہ شہید ارشادمستوئی کا قتل،ایسا قتل جس کی وجہ معلوم
نہ ہو، کہ مقتول کو کیوں قتل کیا گیا۔
ایسا ایک واقعہ
ہفتہ اکیس مئی کو دوپہر تین بجے کے قریب نوشکی کے علاقہ احمد وال میں پیش آیا۔سب سے
پہلے یہ حوال گردش میں آیا کہ ایک گاڑی پراسرا طورپر جل گئی، جس کے نتیجے میں دو افراد
جل کر جاںبحق ہوئے ہیں۔ تاہم ہم اس کی مزید تصدیق کرنے کے لیے لیویز حکام سے رابطہ
کیا تو نتیجہ صفررہا۔ رات دو بجے مجھے سماجی نیٹ ورک ٹویٹر کے ذریعے ایک پیغام ملا
کہ امریکی حکام نے ےہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے نوشکی کے قریب ایک ڈرون حملہ کرکے افغان
طالبان کے امیر ملا منصور کو ہلاک کردیا ۔ نیز یہ کہ وہ ملا منصور کو ایران سے ٹریس
کررہاتھا ۔پاکستان میں داخل ہوکرکوئی پانچ سو کلو میٹر کا سفر کرنے کے بعد اس کا خاتمہ
کردیا ۔
یہ ملا منصور،
ولی محمد کے روپ میں صبح دس بجے راہداری گیٹ سے پاکستان داخل ہوا تھا۔ جس کے پاس پاکستانی
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھا ۔اس نے سیدھا بس ٹرانسپورٹ اور ٹوڈی کار سروس کا چکر لگایا۔وہاں
ٹوڈی کے دفتر میں جاکر رینٹ اے کار میں ایک کار مانگی۔ ٹوڈی سروس والوں کی پالیسی کچھ
ایسی ہے کہ وہاں بہت سی کاریں ہوتی ہیں، اس لیے ان کو باری پر سواریاں دیتے ہیں۔ اس
صبح جب ولی محمد کے روپ میں یہ دہشت گرد آتا ہے تو اس وقت محمد عظم کی باری ہوتی ہے
چنانچہ ٹوڈ ی دفتر کا انچاج ،ڈرائیور محمد اعظم کو فون کرتا ہے کہ ایک سواری ہے، اسے
کوئٹہ تک لے جانا ہے ۔حسبِ معمول وہ اپنے گھر سے نکل کر سیدھا آفس آتاہے اور ےہاں سے
ولی محمد نامی شخص کو بٹھا کر روانہ ہوتا ہے۔
چلتے چلتے احمد
وال کے مقام پراس کی گاڑی امریکی ڈرون کا شکار ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار
دونوں مسافراسی جگہ دم توڑ دیتے ہیں ۔ گاڑی چوںکہ مکمل تباہ ہوجاتی ہے اس لیے محمد
اعظم کی پہچان میں دشواریوں کی سامنا رہتا ہے ۔دونوں میتوں کو نوشکی انتظامیہ تحویل
میں لے کر نوشکی منتقل کردیتی ہے۔ وہاں ایک میت کی شناخت محمد اعظم پتہ تفتان کے نام
سے ہوتی ہے جب کہ دوسرے کی ولی محمد کے نام سے۔ وہاں کی انتظامیہ لاشوں کو سول اسپتال
کوئٹہ منتقل کردیتی ہے ۔
تفتان کے رہائشی
ڈرائیور کی لاش کے پیچھے اس کا چاچازاد بھائی آتا ہے۔ صدمے میں سے دوچار کزن راستے
میں دوبار بے ہوش ہوتا ہے ۔ اُس کے آس پاس میں موجود لوگ اس چہرے پر پانی کے جھپکے
مارکر اسے واپس ہوش میں لاتے ہیں۔
محمد اعظم گذشتہ
بیس برسوں سے ڈرائیوری کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ایک معزور بھائی، ایک بیوہ ماں سمیت
چار گھروں کی کفالت کرتا تھا۔ محمد اعظم انتہائی نیک اور شریف انسان تھا۔ انتہائی محنت
اور لگن کے ساتھ کما کر اپنے بچوں کو پالتا تھا۔بیوہ ماں اور معزور بھائی کا واحدسہارا
تھا۔ محمد اعظم کے قتل کے سبب پورا خاندان ایک سہارے سے محروم ہوگیا۔
اس کے خاندان
کا کہنا ہے کہ محمد اعظم کو کیوں اور کس وجہ سے ماراگیا؟ جب کہ اس کے ہاتھوں نے کوئی
گنا ہ تک نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں جانوروں کے لیے بھی قانون سای
ہوتی ہے اور جانوروں کی قتل پر بھی سزائیں ملتی ہےں لیکن پتہ نہیں امریکہ نے یہاں کیوں
درندگی کا مظاہرہ کرکے ہم سے ہمارا لخت ِجگر چھین لیا۔
مرحوم ڈرائیور
کی ماں ابھی تک غم سے نڈھال ہے ۔اُس کے بچوں کو دیکھ کر ہر انسان کا دل خون کے آنسو
روتا ہے۔ مرحوم کے بھائی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ اس کی شناخت کے بعد حکومت کی طرف
سے کسی نمائندہ نے نہ رابطہ کیا نہ کوئی حوال لیا۔ان کا کہنا ہے کے گھر کے واحد کفیل
کے جانے کے بعد گھر کا بوجھ ایک معزور بھائی کیسے برداشت کرتا….ہم نے میڈیا کے توسط
سے یہ آواز اٹھائی ہے کہ خدارا ہم پر رحم کھایا جائے۔ ایک ہی کفیل تھا، اس کو بھی ہم
سے چھین لیا گیا۔ اب ہم مدد کے لیے کس کے دربار میں جائےں؟ کس سے مدد کی تمنا کریں؟
امریکہ میں جانوروں کے قتل پر کئی سزائیںہوتی ہیں، لیکن ےہاں ہمارے پیاروں کو چھین
لیا جاتا ہے، کوئی پوچھ تک نہیں سکتا۔
اس پر ہم نوشکی
میں ایک ایف آئی آر درج کراچکے ہےں، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ اس کے باوجود کوئی ہمیں پوچھے
گا نہیں۔ان لوگوں سے کوئی سوال نہیں ہو گاجنہوں نے ایک دہشت گردکو شناختی کارڈ جاری
کرکے نا صرف ملک کی بدنامی کی بلکہ ولی محمدکے روپ میں ہم سے ہمارا عزیر بھی چھین لیا۔
انھوں نے کہا
کہ ، ہم وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری سے اپیل کرتے ہےں کہ وہ متاثرہ خاندان
پرر حم کرکے بلا تاخیر امداد کا اعلان کریں ،تاکہ معصوم خاندان کو سہارا مل سکے۔
http://haalhawal.com/mohammad-hassan-baloch/noshki-incedent
Post a Comment