موجودہ دور میں اگر تحریک نسواں اور اس کی افادیت پر بحث
کی جائے تو ہمیں اس حقیقت کا بہ خوبی ادراک ہوتا ہے کہ تحریک نسواں میں مختلف ہائے
فکر کے مختلف تقاضے ہیں ،تا ہم سب کی بنیادی فکر ایک ہی نظرآتی ہے کہ مردوں کے استحصالی
معاشروں میںسانس لینے والی ہر عورت ظلم و بر بریت کا شکار ہورہی ہیں ۔
خواہ اس کا تعلق اپر کلاس سے ہو ،مڈل کلاس سےہو یا لوئر
کلا س سےہو ۔انہیں ان استحصال اور متضاد معاشرتی رویوں سے چھٹکارہ دلاکر سماج میں انسان
ہونے کا اعزازپورے انصاف،پورے حق اور پوری ایمانداری سے دلوایا جائے،جس کے تحت اُسے
معاشرے میں بلا امتیاز، بلا خوف اوربلاجھجھک باعزت مقام پر فائز ہونے کا حق تفویض کیا
جاسکے۔
دنیا بھر میں خصوصاً میڈیا کی آزادی کے بعد جہاں سیاسی،
سماجی اور اقتصادی ترقی پر سیر حاصل
بحث کا سلسلہ شروع ہوا وہاں پر خواتین کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ معاشرے میں
کئے جانے والے استحصال اورامتیازی رویوں کو بھی زیر بحث لایا جانے لگا اس کے ساتھ ساتھ
سماجی اورسیاسی تنظیموں کی جانب سے بھی کھل کر صدائے احتجاج بلند ہونے لگیں
خاص طور پرتیسری دنیا کے ذہنی پسماندگی، غربت اورجہالت کے
شکار ناانصافی، ظلم وجبر اورزیادتی کے حامل معاشروں میں خواتین کی عزت وتوقیر، مقام
اور ان کے حقوق کے حوالے سے بہت سے سوال اٹھائے جانے لگے جن کے جواب حاصل کرنے کے لیے
معاشروں میں سماجی تنظیموں اورخواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی اوزنے اس
مسئلے کو گہری سنجیدگی سے لینا شروع کیا تو انہیں بھی مسئلے کی سنگینی کا گہرا ادراک
ہونے لگا۔
جس کے باعث اس حقیقت میں قطعی دوراتے نہ رہی کہ خواتین کے
حقوق کی خلاف ورزی اورسماج میں ان کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے ذہنی اورجسمانی تشدد
کو دنیا کے سامنے لایا جائے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ اتنی شدت اختیار کرتا
چلا گیا کہ آج پوری دنیا میں ایک ہی بازگشت سنائی دے رہی ہے، خواتین کو حقوق دو اوران
کا استحصال ختم کرو، معاشرے میں انہیں معاشی طور پر بااختیار بناؤ، تاکہ ہر ملک وقوم
ترقی کرسکیں اورنئی نسل کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔
حقوق نسواں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قومی اوربین الاقوامی
سطح پر حتی المقدود آواز اُٹھانے کی کوششیں کی گئیں۔تاہم مردوں کی حاکمیت اورسماج میں
پلنے والی فرسودہ رسم ورِواج کے سائے میں پروان چڑھنے والے تنگ نظر، پسماندہ، ترقی
پزیر یہاں تک کے ترقی یافتہ، معاشروں میں بھی تاحال ان کوششوں کو مکمل کامیابی کی سند
نہیں مل سکی، تاہم تبدیلی کے عمل کاآغاز ہوچکا ہے۔
آج اکیسویں صدی میں سانس لینے والی ہرخطے، ہر علاقے اور
ہر قوم کی عورت کو کم ازکم میڈیا کے توسط سے اتنا شعور تو حاصل ہوگیا ہے کہ وہ اپنے
ساتھ ہونے والی زیادتیوں، امتیازی رویّوں اور درپیش مسائل کو کسی حد تک سمجھنے لگی
ہے بلکہ ان سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر آواز بھی اُٹھانے لگی ہے،تاہم دُنیا
بھر میں تحریک نسواں کی کامیابی اورخواتین کی ترقی میں حائل کئی رکاوٹوں کو دورکرنے
کے لئے ابھی مزید وقت درکار ہے۔
مشہور صحافی سیمون دی بودانے خواتین کے مسائل کو اپنی کتاب
میں اُجاگرکرتے ہوئے لکھا’’اگر ہم عورت کے مقدر کو معاشی قوتوں کی جانب سے تعین شدہ
اوراٹل مان لیں تو یقینا ًاس مسئلے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جائے گی۔آخرعورت ہونے
کی حیثیت اُن کی زندگی پر اثرانداز کیوں ہو؟ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ معاشرے میں عورت
کومکمل انسانی وقار دلانے تک تحریک نسواں کو کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آج ان کے حقوق اورشعور ،آگہی پر بات ہورہی ہے اُنہیں بااختیار
بنانے کے لئے بڑے بڑے دعوے بھی کئے جارہے ہیں ،تاہم جب تک ریاستوں، حکومتوں، معاشروں،
سیاسی ومذہبی جماعتوں، ملکی آئین وقانون اور مذہبی تشریحات کرنے والوں کی سمجھ میں
یہ بات نہیں آتی کہ ایک عورت سب سے پہلے ایک انسان ہے بعد میں عورت اس وقت تک وہ ان
امتیازی رویّوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتی۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک انسان کو مرد ہونے کے سبب معاشرے
میں بلکہ خاندان میں بھی مکمل تحفظ،اہمیت اورخاص مقام حاصل ہوسکتا ہے تو ایک عورت کو
کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہی وہ اہم نکتہ ہے ،جس کے تحت عورت کو برابری کی سطح پر معاشرے
میں یکساں حقوق، اختیارات، عزت واحترام اوراہمیت دی جائے۔ ہمارے معاشرےکا المیہ یہ
ہے کہ جب کوئی مرد اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس پر یہ کہہ کر پردہ ڈال دیا جاتا
ہے کہ وہ تو مرد ہے۔
مثال کے طور پر جب ہمارا کوئی بھائی ،بیٹا غیرت کے نام پر
بہن ،بیوی یا بیٹی کو قتل کرتا ہے تو اُسے معاشرہ اورخاندان معمول کی بات سمجھ کر نظرانداز
کر دیتا ہے،کیونکہ وہ عورت کے مقابلے میں اطاعت اورجواب دہی کے بجائے حاکمیت کے درجہ
پر فائز سمجھا جاتا ہے۔غالباً اس کی بنیادی وجہ اور سوچ یہی ہے کہ مرد طاقتور اورصحیح
ہے جب کہ عورت کمزور ہے۔
لہٰذا اُس پر مرد کی اطاعت فرض ہے۔ یقینا ًیہ اس ہی تنگ
نظر سوچ کا نتیجہ ہے کہ مرد آج بھی ایک عورت کو معاشرے میں وہ حیثیت، وہ اہمیت اور
وہ عزت ومقام دینے پر آمادہ نظر نہیں آتا ،جس کا حق وہ خود اپنی ذات کو ٹہراتا ہے۔اسی
وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے تو اس پر مردوں کی اطاعت لازمی ہے اب
چاہے وہ مرد اس کا باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا پھربیٹا اس کو سب کی سننی پڑے گی اوراپنی
زندگی سے متعلق اہم فیصلوں پر ان کے آگے سرِ تسلیم خم بھی کرنا پڑے گا۔
تحریک نسواں کے آغاز کا مقصد گرچہ مغرب کی خواتین کو مرد
کے استحصال سے آزاد کرانا ہے لیکن مشرقی معاشروں میں جہاں خواندگی کی شرح کم ہونے کی
وجہ سے اس ضمن میں صورتحال مزید بگڑی ہوئی نظرآتی ہے۔وہاں یہ حقیقت سامنے آئی کہ خواتین
کی آزادی سے زیادہ ان کے لئے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کی زیادہ
ضرورت ہے۔
اس حوالے سے آج اتنی تبدیلی تو ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ
خواتین کے ساتھ خصوصاً مشرقی معاشروں میں ہونے والی تمام پرتشدد کارروائیوں کوبین الاقوامی
فورم تک رسائی حاصل ہورہی ہے، جس کے باعث گزشتہ کئی برسوںمیں خواتین کے حقوق اوران
کے تحفظ کے حوالے سے کام کیا جارہا ہےجب کہ دوسری جانب دنیا بھر کی خواتین میں بھی
اپنے حقوق کے حصول کے لئے عالمی سطح پر شعور بیدار کرنے کی کوششیں خصوصاً میڈیا اور
سیمینارز کی مدد سے کی جارہی ہیں۔تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ابھی بھی دنیا کے کسی بھی
ملک سے تعلق رکھنے والی خواتین اس بات کا وثوق سے دعویٰ نہیں کر سکتیں کہ انہیں معاشرے
میں مردوں کے مقابلے میں بنیادی ومساوی حقوق اور اچھی زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہوگئے
ہیں۔
لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی خواتین نے امید
کا دامن اورجدوجہد کا ہتھیار اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے، جس سے اس حقیقت کا بخوبی
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خواتین کی اکثریت وحشت وبربریت اورصنفِ نازک کے ساتھ ہونے
والی ناانصافیوں ،حق تلفیوں اورتنگ نظری پر مبنی سوچوں سے نفرت کا اظہار کرتی ہیں،کیوںکہ
نہ صرف ایسے متضاد رویّوں سے اپنی زندگی میں وہ شدید گھٹن کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتی
ہیں بلکہ معاشرے میں اپنے تحفظ، حقوق اور آزادی کے لئے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔
پسماندہ، ترقی پذیر اور کسی حد تک ترقی یافتہ معاشروں کے
لئے بھی عورت کے کردار کے تعین کے حوالے سے جہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ عورت کوآخر
کب انسان تسلیم کیا جائے گا ؟وہاں یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ خود عورت
اپنے آپ کو انسان کب سمجھنا شروع کرے گی؟ غور کیا جائے تو امتیازی رویّوں اورہر قسم
کے استحصال کی شکار خواتین کی ترقی، اس کے مقام کردار اورخودمختاری کے حصول کے لئے
یہ دونوں سوال اپنی جگہ نہایت اہم ہیں۔
گرچہ الیکٹرونک اورسوشل میڈیا کے حددرجہ فعال ہونے کے طفیل،
دنیا بھر کی خواتین کی اثرپذیری میں وقت کے ساتھ اضافہ دیکھا جارہا ہے لیکن دوسری جانب
بدقسمتی سے فکری اورعلمی جمود کے باعث روایت پسندی، تنگ نظری، غربت جہالت اورذہنی پسماندگی
کے شکار معاشروں میں ابھی تک روشن خیال کی وہ فضا میسر نہیں آسکی ہے کہ، جس میں آزادی
سے سانس لے کر عورت اپنے آپ پر فخر کرسکے۔