سونے اور چاندی والے چاغی میں بے روزگاری کا
جن
محمد حسن بلوچ
ضلع چاغی رقبے کے لحاظ
سے بلوچستان کے طویل اضلاع میں سے ہے ،جس کی سرحدیں مشرق میں نوشکی شمال میں
افغانستان مغرب میں ایران جب کہ جنوب میںواشک اور خاران سے ملتی ہیں۔ اس ضلع کو
اللہ تعالیٰ نے تمام تر نعمتوں سے مالامال کیا ہے، جس میں سونا ،چاندی، ماربل
کرومائیت، پیتل عام ہیں۔جب کہ ایران کے ساتھ راہداری ٹرانزٹ گیٹ سمیت زیروپوائنٹ
کے نام سے ایک تجارتی دروازہ ضلع کے سرحدی شہر تفتان میں واقع ہے۔ چاغی میں دو
گولڈ پروجیکٹ ریکودک اور سائندک کے نام سے مشہورہیں جب کہ جھلی، بوٹگ ،زے مشکیچھ
سمیت سیکڑوں مائنز اس کے کھاتے میں آتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے چاغی کو
تمام تر نعمتوں سے نوازاہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ عوامی مسائل کی آماج گاہ ہے۔چاغی
کو مسائل سے نجات دلانے کے لیے ایک تحریک شروع ہوئی جس کے تحت نوشکی کو چاغی سے
چار اپریل کو الگ کردیا گیا۔جس کے بعد چاغی الگ اور نوشکی الگ ضلع بنا۔ اس تحریک
کی قیادت سخی الحاج دوست محمد نے کی جو بعد میں بابائے چاغی کہلائے۔ اس تحریک میں
چاغی کے بیالیس قبائل نے ان کا ساتھ دیا۔
ضلع کی علیحدگی کی بعد
چاغی کے عوام کو مختلف مشکلات سے نجات ملی۔ ضلع کی علیحدگی کے بعد اس کے اپنے اندر
بسنے والے تمام قبائل کو ان کی دہلیز پر حل پراپنے مسائل حل کرانے کے مواقع ملے۔
یہاں کے مقامی رہائشی کو پہلے صرف ایک لوکل سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے نوشکی جانا
پڑتاتھا۔ جس طرح چاغی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا سب سے بڑا ضلع ہے، اسی طرح
آبادی بھی گنجان ہے۔ چاغی میں ذرائع معاش محدود ہےں۔ ےہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش
گلہ بانی ہے۔جب کہ زراعت خشک سالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہے۔ دیہات میں بسنے والے
تمام لوگ خشک سالی کی وجہ سے نقل مقانی کرکے شہر آئے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف شہر
ان کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
انیس سو تہتر کی
افغانستان کی طالباں اور روس کے درمیان جنگ کے بعد چاغی سے متصل افغان
علاقوںخانیشین سفار لکہڈی سے بڑے پیمانے پر وہاں کے لوگ نقل مقانی کرکے گردی جنگل
چاگے آمری میں پناہ گزین ہوئے۔ جس کی بعد مستقل وہ ےہاں رہنے لگے ۔ہزاروں کے حساب
مہاجرین، مقامی افراد کے لیے سردرد بن گئے۔ افغان مہاجرین کی آباد کاری کے بعد
تمام کاروبار ان کے قبضے میںچلا گیا اورمقامی لوگ لوگ کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور
ہوگئے۔
چاغی میں روزگار کے
مواقع محدودہیں۔ مائنز پروجیکٹ اور سرحدی گیٹس سمیت سرکاری اور نجی اداروں میں
ملازم یہاں کی آبادی کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کی مانندہےں۔ بے روزگاری
کی یہاں سب سے بڑی وجہ یہاں کے ریکودک پروجیکٹ اور جلھی بوٹگ مشکیچہ مائنزکی بندش
ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے سیکڑوں لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ۔ریکودک، جھلی ،
بوٹگ کی بندش کی وجہ سے بہت سے نوجوان غیرقانونی کاموں کی نذر ہوگئے۔ افغانستان
اور ایران میں منشیات کی سمگلنگ کی دوران کئی جوان لقمہ اجل بن گئے ، کئی کو ایران
نے پھانسی دے دی،اور کئی افغانستان میں جیل کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں ۔
آبادی زیادہ ہونے کی
وجہ سے سرکاری اداروں میں ملازمت کا ملنا بھی عذاب سے کم نہیں۔ حالیہ لیویز کی
اَسی کی قریب آسامیوں پر آٹھ سو کے قریب درخواستیں موصول ہوئی تھیں جو یہاں پائی
جانے والی بے روزگاری کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ ریکودک کی بندش اور سائندک میں چینی
کمپنی کی جانب سے ضلع کے لیے خاص کوٹہ نہ رکھنا ےہاں کی بے روزگاری کی سب سے بڑی
وجوہات ہیں، جن کو حل کرنے کے لیے نہ وفاقی حکومت سنجیدہ ہے نہ صوبائی ۔
یہاں کے لوگوں کو وزیر
اعظم میاں نواز شریف سے امیدیں تھیں لیکن وہ بھی وفا نہ ہوسکیں، کیوں کہ اٹھائیس
مئی انیس سو اٹھانوے کو ایٹمی دھماکے کے بعد منعقدہ تقریب میںاسی وزیر اعظم نے
چاغی کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ چاغی کو ماڈل ضلع بنایا جائے گا، لیکن وہ بھی
وفا نہ ہوسکے۔
اگر وفاقی اور صوبائی
حکومت یہ چاہتے ہیں کہ یہاں سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور بے روزگاری کے جن کا
جنازہ نکالاجائے تو انھیں چاہیے کہ ہنگامی طورپر ریکودک پروجیکٹ کو شروع کریں جب
کہ سائندک پروجیکٹ میں یہاںکے مقامی لوگوں کے لیے خاص کوٹہ اور پاک چینا اکنامک
کوریڈور کے ضمن میں ایک اکنامک زون دالبندین میں قائم کریں۔
http://haalhawal.com/mohammad-hassan-baloch/hassan1/
Post a Comment