انسان کے اندر کیمیکلز اور نفسیات کے پیچیدہ عمل سے
پیدا ہونے والے رومانوی جذبات کیا وقت گزرنے کے ساتھ ماند پڑ سکتے ہیں؟
محبت کا اسیر، محبت کا مارا، محبت میں اندھا، محبت میں
پاگل، پہلی نظر میں گھائل، اور کسی کے لیے دل میں تڑپتے پیار کے اظہار کے لیے
مختلف زبانوں میں رائج دوسری ایسی ہی تراکیب پر غور کریں تو ان میں میانہ روی کے
بجائے شدّت محسوس ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے۔
رومانوی محبت آگ کی طرح لپیٹ میں لینے والی، پانی کے ریلے کی طرح بہا لے جانے والی
اور بگولے کی طرح اڑا لے جانے والی ہوتی ہے۔ ہم محبت کے بس میں زیادہ اور یہ ہمارے
قابو میں کمی ہی آتی ہے۔
ایک طرف یہ ایک معمے کی طرح ہے تو دوسری جانب بہت سادہ
سی بات ہے۔ اس کا راستہ سیدھا سادہ اور انجام بسا اوقات، منگنی ہوجانے پر، مختلف
ثقافتوں میں بلا امتیازِ زمان و مکان طے شدہ ہوتا ہے۔
پھر بھی کسی کا پیار سائنس سے نہیں جیتا جا سکتا۔ ایسا
کیوں ہے؟
جاندار جنسِ مخالف کو عمل تولید کے لیے اپنی آمادگی کا
پیغام فیرومونز کہلانے والے کیمیائی مادے خارج کر کے دیتے ہیں۔ عام طور پر خیال
کیا جاتا ہے کہ باہمی کشش کا انحصار ان ہی کیمیائی مادوں پر ہوتا ہے۔ بات دل کو
لگتی ہے۔ اگرچہ حشرات الارض یا کیڑے مکوڑوں میں جنسی پیغام رسانی کے لیے فیرومونز
اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن انسانوں میں اس کی موجودگی کے شواہد کم ہی ہیں۔
لیکن اگر کوئی کیمیکل جسم سے باہر کشش کا اشارہ دیتا ہے
تو جسم کے اندر کیوں نہیں؟ آکسی ٹوسین ہارمون کی مثال ہی لیجیے۔ اس کے بارے میں
عام مغالطہ ہے کہ یہ 'بندھن ہارمون' ہے اور یہ دودھ پیدا کرنے اور بچہ دانی کو
سکڑنے میں مدد دیتا ہے۔ آکسی ٹوسین کی اس خاصیت کا مطالعہ پریری نامی جنگلی چوہوں
میں کیا گیا۔ یہ چوہے ادھر ادھر منہ مارنے کے بجائے ایک ہی جیون ساتھی بناتے ہیں
اور جنسی محبت کا اظہار سرِ عام کرتے ہیں۔
جب ان چوہوں میں آکسی ٹوسین کی پیداوار بند کر دی گئی
تو ان کے درمیان بندھن کمزور اور محبت کا اظہار کم ہوگیا۔ اس کے برعکس دوسری اقسام
کے اُن جنگلی چوہوں میں جو ایک وقت میں کئی جنسی ساتھی رکھتے ہیں جب آکسی ٹوسین کی
مقدار بڑھائی گئی تو ان کی شہوت یا جنسی خواہش ماند پڑ گئی۔ انسانوں میں اس کے
اثرات زیادہ حیران کن نہیں تھے۔ اس لیے یہ ہارمون محبت کے معاملے میں زیادہ کارآمد
نہیں ہے۔
اگر کوئی ایسا کیمیائی مادہ تیار بھی کر لیا گیا جو
محبت کا پیغام محبوب کے دماغ تک لے جائے تو سوال یہ کہ وہ محبت نامے کو ڈالے گا
کہاں کیونکہ دماغ کے اندر محبت کا کوئی لیٹر باکس تو ہے نہیں۔ اور پھر اُس 'لاکھوں
میں ایک' کی شناخت کیسے ممکن ہوگی کیونکہ ایسا کوئی سالمہ یا مالیکیول ہے ہی نہیں
جس پر اس پیغام کو خفیہ زبان میں تحریر کیا جا سکے۔
جب رومانوی محبت کو دماغ کی تصاویر کے ذریعے جانچنے کی
کوشش کی گئی تو وہ حصے 'روشن' نظر آئے جو کسی مقصد کے حصول کے بعد ہوتے ہیں۔ لیکن
ہمارے دماغ کے کسی حصے کا کسی ایک معاملے میں چمک اٹھنے کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں
نکالا جا سکتا اگر دوسرے معاملات میں بھی وہ حصہ ویسا ہی ردعمل دکھائے۔ اور
رومانوی محبت کا معاملہ ماں کی محبت یا اپنی پسندیدہ ٹیم کے لیے موجود جذبے سے
مختلف نہیں تھا۔ لہذا نیورو سائنس 'دل و جان سے فریفتہ' ہونے کے جذبے کی وضاحت
نہیں کر سکی ہے۔
کیا ہمیں مزید تجربات کرنے کی ضرورت ہے؟ سائنسدانوں کا
جواب بالعموم اثبات میں ہوتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ محبت کا جذبہ میکانیکی
طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ تولید کا ہر فیصلہ سادہ اور یکساں نہیں ہو سکتا،
کیونکہ یہ انسان کے بس میں نہیں کہ وہ کسی ایک خاصیت کا اسیر ہو جائے۔ مثلاً دراز
قامتی (لمبے قد) کو ہر دور میں پرکشش سمجھا جاتا ہے لیکن اگر انسان کا جسم اس کی
خواہشات کا طابع ہوتا تو پر تو ہر شخص دیوہیکل ہوتا۔
اس حقیقت سے پتا چلتا ہے رومانوی دل کشی ایک پیچدہ عمل
ہے۔ یہ کیوں اتنا جبلّی اور برجستہ ہے اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی جیسا کہ دوسرے
اہم فیصلے کرتے وقت ہم سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ کیا محبت کے معاملے میں بھی ہم
معقولیت سے کام نہیں لے سکتے؟ عقل سے ہم ان معاملات میں کام لیتے ہیں جہاں ہمیں
خود کو الگ رکھ کر ایسے فیصلے کرنا ہوتے ہیں جنھیں دوسرے آزادانہ طور پر سمجھ کر
ان پر عمل درآمد کر سکیں۔
محبت کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ یہ تو بس ہمارا فیصلہ
صرف اپنے لیے ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی محبوب کی خوبیاں بیان کرکے کون رقیب پیدا کرنا
چاہے گا۔
انسانی جبلّت کو عقل کے مقابلے میں کمتر سمجھنا غلطی
ہوگی۔ یہ نہایت غیرمحسوس اور نفیس پیرائے میں کام کرتی ہے اور اتنے سارے عوامل اس
کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں کہ انھیں ایک ہی وقت میں بروئے کار لانا ہماری عقل کے
لیے شاید ممکن بھی نہ ہو۔ مثلاً ایک چہرے کو پہچاننا اسے بیان کرنے کے مقابلے میں کتنا
آسان ہے۔ پھر محبت کی پہچان کرنا کیوں مختلف ہو سکتا ہے؟
اگر محبت کا اعصابی میکانکی عمل بہت سادہ ہوتا تو ایک
انجکشن لگا کر کسی کے لیے محبت پیدا کی جا سکتی اور اس طرح بغیر کسی دوسری چیز پر
اثرانداز ہوئے اسے آپریشن کے ذریعے اسے نکالنا بھی ممکن ہوتا۔ لیکن اگر محبت کا
معاملہ اتنا پیچیدہ نہ ہوتا تو ہمارا ارتقاء بھی نہ ہو پاتا۔
اس کے باوجود محبت کا انحصار، دوسرے خیالات، جذبات اور
رویوں کی طرح، ہمارے دماغ کے اندر طبعی افعال کے درمیان ایک پچیدہ تعامل پر ہے۔
لیکن یہ کہنا کہ محبت صرف دماغ میں کیمیائی تغیّر کا نام ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے
کہا جائے کے انگریزی ادب کے رومانوی کردار رومیو اور جیولیٹ محض الفاظ ہیں۔ یہ تو
نہ سمجھنے آنے والی بات ہوگی۔ آرٹ یا فنون کی طرح محبت اس کے حصوں کے مجموعے سے
کہیں بڑی ہے۔
اس لیے ہم میں سے جو خوش نصیب محبت کی بے قراری کے
تجربے سے گزر رہے ہیں انھیں خود کو اس کی منہ زور موجوں کے سپرد کر دینا چاہیے۔
اگر وہ ہمیں برباد کرکے کسی سنگلاخ ساحل پر اچھال دیں تو بھی ہم یہ سوچ کر خود کو
تسلی دے سکیں گے کہ عقل سے کام لینے کا انجام بھی اس سے زیادہ مختلف نہ ہوتا۔
Post a Comment