بیکٹیریا اور ہائیڈروجن سے پروٹین حاصل کرنے والے فِن
لینڈ کے سائنسدان کہتے ہیں کہ اِسی دہائی کے اندر یہ قیمت میں سویا سے تیار کردہ
پروٹین کا مقابلہ کرے گا۔
یہ پروٹین مٹی میں موجود بیکٹیریا سے بنائی جاتی ہے۔ یہ
بیکٹیریا، ہائیڈروجن گیس پر پلتے ہیں۔ اور یہ گیس پانی کو بجلی کے ذریعے اپنے
اجزا، ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں‘ میں توڑ کر حاصل کی جاتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگر بجلی شمسی توانائی یا پون
توانائی سے حاصل کی جائے تو اس خوراک کو تقریباً بغیر کسی زہریلی گیس کے اخراج کے
تیار کیا جا سکتا ہے۔
اگر ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا تو اس سے دنیا
کو زراعت سے متعلق کئی قسم کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
جب گذشتہ برس فن لینڈ کے شہر ہیلسِنکی کے مضافات میں جب
میں سولر فوڈ کے پلانٹ کو دیکھنے گیا تو سائنسدان اپنے منصوبے کی توسیع کے لیے فنڈ
جمع کر رہے تھے۔
اب ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 60 لاکھ ڈالر سے زیادہ
رقم جمع کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے تو اس کا انحصار بجلی کی قیمت پر ہوگا
مگر وہ پُرامید ہیں کہ اس دہائی کے اختتام اور شاید 2015 تک اس کی قیمت سویا کے
مقابلے پر آ جائے۔
بے مزا؟
سولین کہلانے والے پروٹین کے آٹے کی خوراک کو میں نے
چکھ کر دیکھا، اس کا کوئی مزا نہیں تھا۔ سائنسدان بھی یہ ہی چاہتے تھے۔
ان کا خیال ہے کہ اس کا اپنا کوئی ذائقہ نہیں ہونا
چاہیے تاکہ اسے آسانی سے دوسری خوراک کے ساتھ ملایا جا سکے۔
مٹر، آئس کریم، بسکٹ، پاستا، چٹنیوں یا ڈبل روٹی میں
اسے پام آئل کی طری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس خوارک کے بنانے والوں کا کہنا ہے
کہ اسے مصنوعی گوشت یا مچھلی کی نشونما کے ایک مرحلے کے دوران بھی استعمال کیا
جاسکتا ہے۔
اسے مویشیوں کی خوراک کے طور پر بھی سویا کی جگہ
استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عام جنگلات کو محفوظ رکھا جا سکے۔
تاہم چاہے ہر بات منصوبے کے مطابق ہی کیوں نہ ہو، جیسا
کے عموماً ہوتا ہے، دنیا بھر کی ضرورت پورا کرنے کے لیے درکار مقدار پیدا کرنے میں
ابھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔
لیکن یہ کئی ایک ایسے منصوبوں میں سے ایک ہے جو مستقبل
میں مصنوعی قسم کی خوراک تیار کرنے کے آئیڈیا پر کام کر رہے ہیں۔
فن لینڈ کی اس کمپنی کے سربراہ پاسی وینیکا ہیں جنھوں
نے برطانیہ کی کرینفیلڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اب فن لینڈ میں لپین رانٹا
یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
پروفیسر وینیکا کا کہنا ہے کہ خوراک کی اس ٹیکنالوجی کا
آئیڈیا اصل میں سنہ 1960 کی دہائی میں اس وقت سامنے آیا تھا جب خلائی صنعت فروغ پا
رہی تھی۔
انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کا یہ پہلا پلانٹ
اپنی تکمیل کے اہداف میں ابھی کئی ماہ پیچھے ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سنہ
2022 تک مکمل ہو جائے گا۔ اس پر ایک بھرپور سرمایہ کاری کا منصوبہ سنہ 2023 میں
تیار ہو گا، اور اگر اس کے بعد تمام باتیں منصوبے کے مطابق چلتی ہیں تو پہلی
فیکٹری سنہ 2025 میں قائم ہو جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’فی الحال ہم بہت اچھا کام کر رہے
ہیں۔ ایک مرتبہ ہم پروٹین تیار کرنے والے ریی ایکٹر کے لگانے کے بعد فیکٹری کو ایک
شکل دے دیتے ہیں اور پن بجلی اور شمسی توانائی سمیت توانائی کے دیگر ذرائع سے حاصل
کردہ ٹیکنالوجی کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ہم سویا کا شاید
سنہ 2025 میں مقابلہ کر سکیں گے۔‘
ہائیڈروجن حاصل کرنے کے لیے پانی کو الیکڑولیسس یا برق
پاشی کے ذریعے ’پھاڑا‘ جاتا ہے اور پھر اس ہائیڈروجن سے سولین پروٹین تیار کی جاتی
ہے۔ پھر ہائیڈروجن، ہوا اور معدنیات سے حاصل کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے
بیکٹیریا کی نشونما کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس کی قیمت کے تعین میں
بجلی کی قیمت کا اہم کردار ہوگا۔ اس کمپنی کا خیال ہے کہ جیسے جیسے توانائی کے نئے
اور دوبارہ قابل استعمال ذرائع سامنے آئیں گے اس نئی خوراک کی قیمت کم ہوتی جائے
گی۔
ماحول کو صاف رکھنے کی مہم چلانے والے جارج مونبیوٹ نے،
جنھوں نے گوشت کی صنعت کے ماحول پر تباہ کن اثرات پر’اپوکلِپس کاؤ‘ نامی ٹی وی
ڈاکومینٹری بنائی ہے، اس نئی ٹیکنالوجی کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا ہے۔
پُراُمید مستقبل؟
مونبیوٹ ویسے تو کرہ ارض کے مستقبل سے خاصے مایوس ہیں،
لیکن ان کا کہنا ہے کہ سولر فوڈ نے امید کی ایک نئی کرن پیدا کر دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’خوراک کی پیداوار نے اس وقت دنیا کے
وسائل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک لحاظ سے ماہی گیری اور زراعت کی وجہ سے کرہ
ارض کا حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماحول کی تباہی میں
سب سے بڑا کردار زراعت کا ہے۔
’لیکن
اب جبکہ بہتری کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں، ’بغیر کھیت کے خوراک‘ کے خیال سے
انسانوں کو اور کرہ ارض کو بیک وقت بچانے کے لیے کمال درجہ کے امکانات پیدا ہوئے
ہیں۔
’عارضی
طور پر زراعت سے خوارک کے حصول کو ترک کر کے ہم کئی انواع اور ماحال کو تباہی کے
اثرات سے بچا سکتے ہیں۔
’لیکن
بغیر کھیت کے زراعت کے تصور سے ایک امید پیدا ہوئی ہے۔ ہم جلد ہی دنیا کو تباہ کیے
بغیر انسانوں کو خوراک مہیا کرسکیں گے۔‘
ری تھِنک ایکس نامی ایک تحقیقی ادرے کا، جو ٹیکنالوجی
کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے، کہنا ہے کہ سنہ 2035 تک نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل
ہونے پروٹین مویشیوں سے حاصل ہونے والی پروٹین سے دس گنا سستی ہو گی۔
اس ادارے کی پیشن گوئی ہے کہ لائیو سٹاک کی انڈسٹری
تقریباً ناپید ہو جائے گی، اگرچہ ناقدین پھر یہ شکایت کریں گے کہ اس نئے منصوبے میں
اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ گوشت کی صنعت سے وابسطہ اپنے جانوروں کی
غذائیت کے لیے کہاں سے پروٹین حاصل کریں گے۔
دنیا کے کئی بڑے بڑے سائنسدانوں پر مشتمل ایک گروپ قائم
کر دیا گیا ہے جو خوارک کے حصول کے نت نئے ذرائع کی شناخت پر کام کر رہا ہے تاکہ
ماحول پر زراعت کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
گذشتہ برس ایک تحقیقی مقالے میں اس بات کی نشاندہی کی
گئی تھی کہ مائیکروبیئل یا جراثیم سے حاصل کی گئی پروٹین، زمین کے استعمال کے لحاظ
سے سویا کی نسبت کئی گنا بہتر ہے، اور یہ صرف پانی کا دسواں حصہ استعمال کرتی ہے۔
مگر اس میں ایک ثقافتی محرک بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ کئی
لوگ بکرے کی چانپ اپنی اصلی شکل میں ہی کھانا پسند کریں گے۔
کرینفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لیون ٹیری کہتے ہیں کہ
خوراک کی نت نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت مصنوعی نوعیت کی خوراک کے شعبوں
میں سرمایہ کاری کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔‘ مگر وہ پوچھتے ہیں کہ ’کیا اس قسم کی
خوارک کے لیے لوگوں میں اشتہا بھی موجود ہے؟‘
Post a Comment